Tuesday 27 January 2015

اس دردِ دل کا درماں کرۓ کوئی



دل مسلا جاتا ہے۔ دل پھٹتا ہے۔ درد انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ بے بسی برداشت نہیں ہوتی۔ جب۔۔۔
جب کسی بچے کو بھیک مانگتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی بچے کو کسی اجنبی کے ہاتھوں مار کھاتے اور بےعزت ہوتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی سائیکل والے کو ٹریفک پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی نوجوان کے ہاتھ میں ہتھکڑی دیکھتی ہوں۔
جب صبح گھر سے نکلے کڑیل جوان کا لاشہ گھر میں داخل ہوتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی بچے کی ماں کو اپنے بچے کا قصور پوچھتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی عدالت کے باہر ایسے نوجوان کو دیکھتی ہوں جو ضمانت کے بعد کسی اپنے کے آنے کے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے۔
جب کسی خطا وار کو گناہ گار بن کر جیل سے باہر آتا دیکھتی ہوں۔
جب راہ میں چلتے کسی لڑکے کو آوازیں کستے دیکھتی ہوں۔
جب کسی معصوم بچے کو وقت سے پہلے بڑا ہوتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی معصوم کے کندھوں پر روزگار کا بوجھ اور ہتھیلیوں پر وقت کے ستم دیکھتی ہوں۔
جب کالج کے لڑکوں کو بسوں اور وین میں ڈرائیور اور کنڈکٹر  سے ہاتھا پائی کرتے دیکھتی ہوں۔
جب قلم پکڑنے والے ہاتھوں میں کڑے تیوروں کے ساتھ ہاکی اور بیٹ پکڑے دیکھتی ہوں۔
جب نماز کے وقت کسی مسلمان بچے کو کھیل کے میدان میں یا گلی کے نکڑ میں کھڑا دیکھتی ہوں۔
جب گلی میں کھیلتے بچوں کو آپس میں ایک دوسرے کو گالی دے کر بلاتے دیکھتی ہوں۔
میرے بچے ایسے ہی روز قتل ہوتے ہیں۔ ہر طریقے سے قتل ہو رہے ہیں۔
کوئی میرا درد سمجھ سکتا ہے کیا؟
میں کس کو ملزم نامزد کروں؟ کس کو قصور وار ٹھہراؤں؟ 
کیا ان کی ماؤں کو جن کے لاڈ پیار نے انہیں بگاڑ دیا ، یا ان ماؤں کو جنہوں نے انہیں اپنایا ہی نہیں، یا ان کے باپوں کو جن کی بےجا سختی نے انہیں باغی کر دیا۔ یا ان باپوں کو جنہوں نے انہیں حرام کھلایا اور حرام سکھایا، یا ان کے استادوں کو جن کو تربیت کرنا بھول گئ، جو عمارت بنانا بھول گئے۔ یا اس نظام کو جو کندن کی بجاۓ سونے کو راکھ کر دیتا ہے۔ یا معاشرے کے ان بیمار حیوانوں کو جو کسی ایسے ہی ظلم کا انتقام لے رہے ہیں، یا پھر اپنے نفس کے غلام بن گئے ہیں۔
یا پھر ان بچوں کے پیٹوں میں گئ حرام کی کمائی کو، یا پھر قدرت کے بازی پلٹنے کو۔
بولو! میں کس کو دوش دوں۔ یہ درد اب ناقابل برداشت ہے۔ مجھے اس بیماری کی جڑ اکھاڑنی ہے۔ بتاؤں کس کس کو اکھاڑوں۔

Sunday 4 January 2015

اسلام کی بنیاد اور عمارت

جس کے اسلام کی بنیاد مضبوط ہو گی، اس کی عمارت بھی مضبوط بنی گی، اور وہ اتنا ہی کامیاب ہو گا۔ اس بنیاد کو قرآن نے بیان کیا ہے۔

غیب پر ایمان لانا (جو کہ ہم ایمان مفصل اور مجمل میں پڑھتے ہیں)
نماز قائم کرنا (نماز کو وقت کی پابندی کے ساتھ اس کے حقوق و محسنات سمیت ادا کرنا)
اللہ کے دیئے ہوۓ مال میں سے خرچ کرنا
اللہ کی طرف سے جو بھی احکامات نازل ہوۓ نبیﷺ پر اور باقی انبیاۃ پر ان سے پر ایمان لانا
اور آخرت پر یقین رکھنا(ایسا ماننا گویا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں

اور اس کے علاوہ
رشتوں کو جوڑے رکھنا
زمین میں فساد نہ کرنا
حق اور باطل کو آپس میں نہ ملانا
حق کو نہ چھپانا
جس نیکی کا لوگوں کو حکم دینا وہ خود بھی کرنا
روزے رکھنا
حج و عمرہ ادا کرنا
صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرنا بجاۓ شرکیہ کام کرنے کے
جھوٹ نہ بولنا
ناحق قتل نہ کرنا
ظلم نہ کرنا
ظالم کا ساتھ نہ دینا
احسان کرنا
درگزر کرنا
اچھے طریقے سے بات کرنا
واضح بات کرنا
بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا
اچھے کاموں میں دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا
امر بلمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کرنا
قرآن سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا
اچھے اخلاق اپنانا
بے حیائی سے رکنا
تکبر اور غرور نہ کرنا
اللہ کا شکر کثرت سے ادا کرنا
عہد کی پابندی کرنا
امانت کی حفاظت کرنا
حسد بضض اور منفی جذبات سے بچنا
فضول خرچی اور بخل سے پرہیز
لغو باتوں سے پرہیز کرنا
صدقہ دینا
زکوۃ اور عشر دینا
احسان نہ جتانا، تکلیف نہ دینا
دشمن کے ساتھ بھی انصاف سے کام لینا اور ذیادتی نہ کرنا
آپس میں ایک دوسرے کا مزاق نہ اڑانا اور برے لقب سے نہ پکارنا
غیبت نہ کرنا
ناپ تول میں کمی نہ کرنا
دھوکہ نہ دینا
حرمت والی چیزوں کی حرمت کی پاسداری کرنا
حقوق اللہ اور حقوق العباد پوری طرح ادا کرنا
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
حرام سے بچنا
اللہ سے ڈرنا
توبہ استغفار کثرت سے کرنا
اللہ کی تسبیح اور حمد کثرت سے بیان کرنا
نبیﷺ پر درود بھیجنا

وہی اللہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری، جس میں محکم آیات ہیں جو کتاب کی اصل ہیں اور بعض آیات متشابہات ہیں، تو لیکن وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنے کی طلب اور انکی تاویل کی جستجو میں حالانکہ ان کی حقیقی تاویل اللہ ہی جانتا ہے۔۔۔( سورۃ آل عمران آیت 7)

اب ہم عالم فاضل تو ہیں نہیں کہ ان معاملات میں جھگڑا کریں جو کہ آجکل فرقہ واریت کا سبب بن رہے ہیں۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ بنیاد سے اوپر جاتے ہیں، بغیر بنیاد کے دیوار کھڑی ہو نہیں سکتی، عمارت کہاں ہو گی اور اس کیا تزئین و آرائیش کا کیا مطلب۔

Wednesday 31 December 2014

آج کے بنی اسرائیل

دن گزرنے کے ساتھ ساتھ تفرقہ بازی بڑھتی جا رہی ہے اور الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، میں گزشتہ پانچ سالوں سے سوشل میڈیا کے ساتھ منسلک ہوں۔
مگر جو فرقہ بازی اس وقت نظر آ رہی ہے وہ اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔
ہر بات ہر معاملے میں فرقے میں پڑھ گئے ہیں ہم لوگ۔ اس وقت صرف عید میلاد النبیﷺ کا معاملہ لے لیں۔ بہت دن سے صرف میں یہ مشاہدہ کر رہی ہوں، کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حدیں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ مجبوراً اپنا خیال پیش کرنا پڑا کہ شائد کوئی تو سمجھ جاۓ۔
اسکے حق میں جو لوگ ہیں وہ دوسروں کو گستاخ اور کافر کہہ رہے ہیں
جو نہیں مناتے، وہ منانے والوں کو بدعتی اور ابو لہب کا پیروکار کہہ رہے ہیں۔
کیا یہ سب لوگ اللہ سے یہ لکھوا کر لاۓ ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور باقی سب کافر ہیں۔
کیا یہ لوگ اس معاملے میں خدا سے خوف نہیں کھاتے کہ اہل کتاب سے امامت اسی لئے چھینی گئ کہ انہوں نے اسی دین میں ایسے ہی اختلاف شروع کر دیا تھا جیسے آج ہمارے مسلمان کر رہے ہیں۔
یہ کسی تو نظر نہیں آتا ہے کلمہ سب پڑھتے ہیں، نمازیں سب پڑھتے ہیں، روزے سب رکھتے ہیں، زکوۃ سب دیتے ہیں، حج اور عمرہ کے لئے سب جاتے ہیں۔ ایک اللہ کو مانتے ہیں ، رسولﷺ کو اپنا نبی مانتے ہیں ، آخری رسول مانتے ہیں۔ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔اتنی مشترکہ باتوں کو چھوڑ کر اختلافی مسائل میں صرف ضد کی وجہ سے پڑے ہو۔ اور ایسے میں کھلم کھلا آپ بغیر کسی سند کے کسی کو کیسے جہنمی اور کافر کہہ سکتے ہو۔ ابو لہب کا پہروکار کیسے کہہ سکتے ہو، جب کہ ابو لہب تو نہ توحید کا پیروکار تھا نہ ہی رسالتِ محمد ﷺ کو ماننے والا۔
خود کو نبیﷺ کا عاشق کہتے ہو ، ان سے محبت کا دعوی کرتے ہو، مگر نبی کریمﷺ نے تو مدینے کے منافقین کا بھی پردہ رکھا تھا۔ جو انہیں مانتے ہی نہیں تھے، صرف ڈھونگ رچاتے تھے، اور تم اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے ایمان کا انکار کھلم کھلا کر رہے ہو۔ یہ کیسی عاشقی ہے تمہاری، اسی نبیﷺ کے دین کا پوری دنیا میں مذاق بنا رہے ہو۔ اللہ نے تمہیں ذمہ داری دی تھی، کہ تم دوسروں تک اللہ کو پیغام پہنچاؤ، یہ کام کرنا تو دور کی بات، تم آپس میں ابھی تک یہ طے نہیں کر پاۓ کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔ کسی کے ایمان کی جانچ اللہ کے اپنے اختیار میں رکھی ہے۔ کسی انسان کو نہیں دی۔
عید میلاد النبیﷺ منا کر خود کو عاشقِ رسولﷺ کہنے والو! ذرا یہ تو بتاؤ کہ باقی زندگی کے کس کس معاملے میں نبیﷺ کے قدموں کے نقش پر چلتے ہو۔ تمہیں دیکھ کر کتنے لوگوں نے کہا کہ وہ دیکھو عاشقِ رسولﷺ جا رہا ہے، وہ دیکھو مسلمان جا رہا ہے۔
اور عید میلاد النبیﷺ کی مخالفت کرنے والو! اور ان کو منانے والوں کو بدعتی اور ابو لہب کا پےروکار کہنے والو! ذرا اپنا محاسبہ کرو کہ تم کن کن معاملات میں نبیﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہو۔
خدارا اپنے دین کو دنیا میں تماشا نہ بناؤ۔ سوچ کے اختلافات تو صحابہ اکرامؓ کے درمیان بھی ہوا کرتے تھے، مگر انہوں نے اپنے دلوں میں پھوٹ نہیں پڑنے دی، تم کیوں مسلمان کو مسلمان کے لئے اجنبی بنا رہے ہو۔ یاد رکھو یہ تفرقہ بازی بھی اللہ کا عذاب ہے، جسے تم اپنے ہاتھوں اپنے اوپر مسلط کر رہے ہو۔
اگر کسی سے آپ کو اختلاف ہے تو تبلیغ کا صحیح طریقہ اللہ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے، تو اگر آپ عاشقِ رسول ﷺ ہیں اور سنت کے پیروکار ہیں تو خدا کے لئے اس جاہلانہ طرز اختلاف کو چھوڑ کر اس کتاب سے راہنمائی لیں۔
"آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہی ہیں"(آل عمران 64)
تو اہل کتاب کو تبلیغ کرنے کے لیے شروعات مشترکہ اقدار پر کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور اگر نہ مانیں تو چھوڑ دیں۔ تو ہم لوگ آپس میں کیوں شروعات ہی اختلاف سے کر کے ڈائریکٹ کفر کے فتوے پر چلے جاتے ہیں۔
جس نبیﷺ سے محبت کے دعوے میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں، اسی کے دین کی خاطر اور اسی کے پیغام کے مطابق ایک بار دلوں سے کدورتوں ، ضد اور تعصب کو نکال کر اپنے پر غور کر لیں، اور دوسروں کے ایمان ناپنے کے بجاۓ اپنے محاسبے پر توجہ دیں۔ یقیناً اللہ سب کو دیکھ رہا ہے اور سب کے دلوں کا حال وہی جانتا ہے۔

Thursday 9 October 2014

سورۃ البقرۃ آیت 30-39




آیت نمبر 30-39
ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ  بیشک میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کہ کیا تو بناۓ گا اس میں جو فساد کرۓ گا اور خون بہاۓ گا،حالانکہ ہم تیری تعریف ساتھ تیری تسبیح بیان کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں، فرمایا بیشک جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے (30)
اور اس نے آدم کو تمام کے تمام نام سکھا دئیے ، پھر ان کو فرشتوں پر پیش کیا اور پھر فرمایا مجھ کو ان سب کے نام بتاؤ، اگر تم سچے ہو (31)
انہوں نے کہا تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے سکھایا، بیشک تو ہی بہت ذیادہ علم والا، بہت ذیادہ حکمت والا ہے(32)
فرمایا اے آدم! ان کو ان کے نام بتاؤ ،پھر جب انہوں نے ان کے نام بیان کر دئیے، فرمایا کیا میں نے نہیں کہا کہ زمین اور آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپا رہے ہو (33)
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا (34)
اور ہم نے کہا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب مت جانا، ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے (35)
لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے کہا اتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہواور ایک مقررہ وقت تک تمہارےلیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے (36)
پس آدم نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے (37)
ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں (38)
اور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں ، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے (39)

خلیفۃ: خ،ل،ف: پیچھے  خلیفہ کہتے ہیں پیچھے آنے والے کو۔
عرضہم: ع، ر،ض: پیش کرنا / عرض کرنا
انبؤنی: ن، ب،ء: اہم معاملے کی خبر دینا
سبحنک: س، ب،ح: ہر عیب سے پاک قرار دینا
تبدون: ب،د،و: بغیر ارادے کے ظاہر کرنا
تکتمون : ک، ت، م: جان بوجھ کر چھپانا
ابلیس: ب، ل، س: سخت مایوس اور غمگین
ابٰی: ا،ب،ی: اَڑ جانا/ انکار کرنا
اسکن: س، ک، ن: ٹھہرنا/ رک جانا
رغداً: ر،غ،د: رغد کہتے ہیں جانوروں کو چرنے کے لیے آذاد چھوڑ دینا، اسی سے لفظ رغدًا نکلا ہے
حیث: اسم زمان اور مکان دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے
ظلم: کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا دینا/ کسی کو اس کے حق سے محروم کر دینا/ کسی چیز کو اس کے مقام سے محروم کر دینا
فارلھما: ز،ل،ل: بلا ارادہ پھسل جانا
اھبطوا: ھ، ب،ط: جبراً اوپر سے نیچے آنا
عدوّ: ع،د،و: بدخواہ/ دشمن/ تکلیف پر خوش ہونے والا
مستقر: ق،ر،ر: ٹھنڈ
حین: ح، ی،ن: زمانہ/ مدت
فتلقی: ل،ق،ی: شوق اور رغبت سے کسی کا استقبال کرنا/ خوشی سے قبول کرنا
یحزنون: ح،ز، ن: کسی معاملے میں طبیعت کا بے چین ہونا/ مصیبت/ غم

جنوں کو انسانوں سے تقریباً دو ہزار سال پہلے پیدا کیا۔ زمین میں اختیارات ملنے کی وجہ سے انہوں نے خوب فتنہ فساد کیا۔ پھر جب اللہ نے ایک اور مخلوق یعنی کہ انسان کی پیدائش کا ارادہ ظاہر کیا اور زمین میں ان کو خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا، فرشتے جو پہلے ہی جنوں کی فتنہ انگیزیاں دیکھ چکے تھے تو انہیں انسان سے متعلق بھی یہی اندیشہ ہوا۔ انہوں نے اپنے اندیشے کا اظہار کیا کہ اے اللہ تو ایسی مخلوق بناۓ گا جو زمین میں فساد کرۓ گی اور خون خرابہ کرۓ گی۔ حالانکہ تیری تسبیح بیان کرنے کے لیے ہم ہیں۔ اب انسان کی پیدائش کا بھی مقصد یہی تھا، جیسا کہ قرآن میں ہی ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اب فرشتوں نے کہا کہ اے اللہ ہم تو بس تیری تسبیح اور پاکی بیان کرتے ہیں اور تیرے تعریف بھی۔ تسبیح کا مطلب ہے ، تعریف کے لیے پاکی بیان کرنا۔ پھر آگے لفظ ہے نقدس ، اس کا مطلب ہے تعریف کے ساتھ ان چیزوں کی تردید بھی کرنا جو اللہ کی شان کے خلاف ہیں، شرک سے پاک قرار دینا۔
تو جب فرشتوں نے ایسا کہا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ جیسا کہ بعض اوقات ہمیں ایک چیز اچھی معلوم نہیں ہونی، مگر وہ ہمارے حق میں بہتر ہوتی ہے، یہ اللہ کی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔ اب یہاں پہ ایک بات ہے کہ فرشتوں نے اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ صرف اپنی راۓ کا اظہار کیا تھا، اپنا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔
پھر اللہ نے ایک عملی تجربہ رکھا، دیمسٹریشن ،
اللہ تعالٰی نے حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا ، اور پھر ان کو سارے نام سکھا دیئے، اب یہاں پہ دوآراء ہیں۔ بعض مفسرین کے مطابق دنیا کی تمام چیزوں کے نام سکھا دیئے ، اور بعض کے مطابق جو تمام بنی آدم کی روحیں پیدا کی تھی، اول و آخر ان سب کے نام سکھا دیئے۔ پھر فرشتوں کے سامنے حضرت آدمؑ کو پیش کیا اور فرشتوں سے کہا کہ تم ان سب چیزوں کے نام بتا دو۔ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو کہ یہ انسان فتنہ فساد ہی کرۓ گا۔ فرشتوں نے کہا کہ ہمیں تو بس اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ سارا علم اور حکمت تو صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ یہاں پہ شرک کی تردید کی گئ ہے۔ جیسا کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ تو یہاں بتا دیا گیا ہے کہ نہیں تمام تر علم اور حکمت اللہ کے لیے ہے، فرشتے تو اللہ کی مخلوق ہیں، انہیں جتنا اللہ نے سکھایا ، انہیں اتنا ہی پتا ہے، اور وہ اللہ کی تسبیح اور پاکی بیان کرتے رہتے ہیں۔ پھر اللہ تعالٰی نے آدمؑ کو کہا کہ ان تمام کے نام بیان کرو، اور آدمؑ نے تمام نام بیان کر دئیے، اللہ تعالٰی نے فرمایا فرشتوں سے کہ میں نے کہا تھا نا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ یعنی فرشتوں پر واضح کیا کہ انسان کو پیدا کرنے کا ایک اور مقصد کیا ہے۔ اب یہاں پہ ایک اور بات کلئیر ہوتی ہے کہ سب سے پہلی فضیلت جو انسان کو فرشتوں پر ملی وہ علم کی فضیلت ہے۔ انسانوں کو ذیادہ علم عطا کیا گیا۔ پھر اللہ تعالٰی نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں سب جانتا ہوں جو تم ظاہر کر بیٹھے تھے اور جو کچھ چھپا کر رکھا ہے، مطلب کہ فرشتوں کے دل میں جو بات آئی تھی اس اندیشے کا تو وہ اظہار کر بیٹھے ، لیکن پوری بات نہیں کی، کچھ ظاہر نہیں بھی کیا (وللہُ اعلم)۔ تو اللہ نے فرمایا میں وہ بھی جانتا ہوں جو تم نے ظاہر نہیں کیا۔
تو پہلی فضیلت اور نعمت جو انسان کو عطا کی گئ وہ علم کی تھی۔ اور علم سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ یہ کبھی ختم نہیں ہوتا اور انسان کی حفاظت کرتا ہے۔
دوسری نعمت عزت و اکرام کی تھی۔ باقی مخلوقات پر فضیلت دی گئ۔ فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے انکار کیا۔ ابلیس جنوں کی قوم سے تعلق رکھتا تھا، مگر بہت کثرت سے عبادت کی وجہ سے مقرب فرشتوں کے ساتھ ہوتا تھا، اس کا مقام بھی بہت بلند تھا۔ اور چونکہ وہ فرشتوں کے ساتھ ہوتا تھا ، تو جو حکم فرشتوں کے لیے تھا وہی ابلیس کے لیے بھی تھا۔ جیسا کہ پارہ 15، سورۃ الکہف آیت 50 میں ارشاد ہوتا ہے
" اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا ، یہ جنوں میں سے تھا ، اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھ کو چھوڑ کر دوست بنا رہے ہو؟حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے"(۵۰)
انکار کس وجہ سے کیا ۔ ایک تو یہ کہ انسان کو زمین میں خلیفہ بنایا جا رہا تھا اور تمام مخلوقات پر فضیلت انسان کو دی گئ۔ زمین کی خلافت انسان کو عطا کی گئ، تو ابلیس جوجنوں میں سے تھا، وہ اسے قبول نہ کر سکا، دوسرا عبادت گزار تھا بہت تو اپنی عبادت کا تکبر کر بیٹھا۔ اور انکار کر دیا سجدے سے اور تیسری بات کہ وہ اس تکبر میں آ گیا کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اورآدم خاک سے تو میں برتر ہوں اور کافروں میں سے ہو گیا۔ تو دیکھیں کہ اتنا عبادت گزار تھا کہ مقرب فرشتوں کے ساتھ ہوتا تھا اور ایک سجدے سے انکار نے اور تکبر نے اسے سے سب چھین لیا۔ پارہ 8، سورۃ الاعراف آیت 12، 13 میں اس کی تفصیل بیان ہے۔
تیسری فضیلت اور نعمت جو آدمؑ کو دی گئ وہ جنت میں ٹھکانہ تھا، یہاں آپ دیکھیں گے نام آدمؑ کا لیا گیا مگر مخاطب دونوں کو کیا گیا، حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی کو ، اس سے ہمیں یہ بات پتا چلتی ہے کہ اسلام کے احکام دونوں مرد اور عورت کے لیے یکساں ہیں۔ ہاں جہاں بعض معاملات میں تخصیص کی گئ ہے، ساتھ اس کی وجوہات بھی بیان کر دی گئ ہیں۔
اچھا تو حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی کو کہا گیا کہ جنت میں رہو اور کھاؤ پیو ، جہاں سے ، جب بھی ، جو مرضی چاہو، کھاؤ پیو۔ مگر ایک شرط عائد کر دی گئ۔ ہر نعمت امتحان ہوتی ہے۔ ہر نعمت کے استعمال کی  کچھ شرائط ہوتی ہیں، جیسا کہ ہم کچھ چیز بازار سے خریدتے ہیں تو اس کے ساتھ ہمیں ڈوز اینڈ ڈونٹس کا ایک ہدایت نامہ ملتا ہے۔ ہر شر اور خیر اپنے ساتھ کچھ امتحان لے کر آتی ہے۔ اب یہاں بھی جنت کی نعمتوں کے استعمال کے ساتھ ایک شرط بھی عائد کر دی گئ، ایک امتحان میں ڈالا گیا ان کو۔ کہ جو بھی ، جہاں سے مرضی ہے کھاؤ پیو، مگر فلاں درخت کے پاس مت جانا۔ وہ ممنوعہ ہے، اس تک ایک حد قائم کر دی گئ ، اور ساتھ بتا دیا کہ اگر یہ حد پار کرو گے تو ظالموں میں سے ہو جاؤ گے، ظالم کون ہوتا ہے جو کسی کے حق میں کمی کرۓ۔ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے محروم کر دے۔ اگر اس درخت کے پاس جاؤ گےتو اللہ کے حکم کی نافرمانی ہو گی۔ اور اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کا حکم من و عن مانا جاۓ، اور اللہ کی نافرمانی کا مطلب ہے اللہ کے حقوق میں کمی کرنا۔ پھر نعمتوں کا صحیح استعمال، حدود و قیود کی پابندی کے ساتھ، نعمتوں کا حق ادا کرنا ہے۔ تو حدود پار کرنا نعمت کے ساتھ ظلم کرنا ہے۔ اور جو بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود پار کرۓ گا۔ وہ اپنا ہی نقصان کرۓ گا، اللہ تو بے نیاز ہے۔ انسان اپنے ساتھ ظلم کرتا ہے۔ ظالم نافرمان ہوتا ہے، اللہ اور بندوں کے حقوق کی حق تلفی کرتا ہے ، مگر ظلم حقوق میں ہو یا وسائل میں اس کا انجام کار خود انسان پر پلٹتا ہے۔
پھر یہ کہ انہیں منع کیا گیا اس درخت سے۔ مگر شیطان نے ان کو بھٹکا دیا، بہکا دیا، ان کا ارادہ نہیں تھا، ان کا گمان نہیں تھا کہ وہ یہ نافرمانی کریں گے، مگر شیطان نے ان کو ورغلا دیا اور جنت سے ان کو نکلوا دیا۔ شیطان جب کسی انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے تو دوست کی حیثیت سے ڈالتاہے، وسوسہ ڈالتا ہے، مختلف تاویلیں اور فضول کی بحث میں الجھاتا ہے، اور پھر گمراہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے، اس لیے سب سے ضروری اور سب سے مشکل کام وسوسوں پرقابو پانا ہے۔ جہاں سے دل میں وسوسے رہنا شروع ہو گۓ وہیں سے بگاڑ شروع ہو گیا۔ اب یہاں بھی شیطان ان کا خیر خواہ بن کرآیا اور کس طرح ان کو بہکایا اس کی تفصیل ہمیں پارہ 8 ،سورۃ الاعراف آیت نمبر20-21میں ملتی ہے ۔
" پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے روبرو بےپردہ کر دے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب منع نہیں کیا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں فرشتے نہ ہو جاؤ اور کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔ (۲۰)
اور ان دونوں کے روبرو قسم کھا لی کہ بیشک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (۲۱)
سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا، پس ان دونوں نے جب درخت چکھا تو دونوں ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہو گۓ اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا، کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کیا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟ (۲۲)
 پھر ان کوکہا گیا ان کو کہ اتر جاؤ۔ یعنی ایک کو جنت سے زمین پر اتارا گیا اور اس کا یہ معنی بھی لیا جا سکتا ہے کہ اس نافرمانی کی صورت میں ان کا مقام میں کمی کر دے گئ۔ اللہ کی نافرمانی کی اور اللہ نے جنت سے نکال دیا۔ اور کہا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ کون؟ ایک تو شیطان انسان کا دشمن اور انسان شیطان کا دشمن ۔ اور دوسرا بعض انسان بھی آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ یہ فیصلہ روزِ اول ہی کر دیا گیا تھا۔ حق و باطل کی لڑائی کا۔ اور باہمی اختلافات کا۔ پھر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ صرف ایک مقررہ مدت تک اس میں رہنا ہے۔ اب دیکھیں انسان کا زمین میں مقام کیا ہے۔ دشمن کو ساتھ ہی بھیجا گیا، پھر شدید امتحان میں سے گزرنا ہے۔ امتحان کیا ہے؟ پارہ 8، سورۃ الاعراف آیت 27
" اے اولادِ آدم! شیطان تمہیں کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا، ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو بے پردہ کر دے، وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتاہے کہ تم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ (۲۷)
ان دیکھے دشمن سے واسطہ پڑا ہے، جو خود بھی نظر نہیں آتا ، اور اس کی چالیں بھی انسان نہیں سمجھ پاتا، دوست کے لبادے میں دشمنی کرتا ہے۔ غلط راستے پر ڈالتا ہے اور خود الگ ہو جاتا ہے۔ سخت امتحان ہے، مگر ہمیں احساس ہی نہیں۔
اور ایک اور امتحان کہ ایک مقررہ مدت تک اس زمین میں رہنا ہے۔ کس کی کتنی مدت مقرر ہے یہ بھی کسی کو معلوم نہیں۔ نامعلوم مگر مقررہ مدت۔ ذرا سوچیں آپ کمرہِ امتحان میں ہیں، آپ کو پتا ہی نہیں کہ کتنا وقت رہتا ہے ، مگر یہ معلوم ہے کہ وقت ختم ہوتا جا رہا ہے، کتنی بے چینی اور اضطراب ہوتا ہے، کتنا تیز تیز ہاتھ چلاتے ہیں کہ کہیں کچھ رہ نہ جاۓ، غلطی نہ ہو جاۓ۔ مگر ہم لوگ کتنے سکون و آرام سے بیٹھے ہیں۔ جیسے ہمیشہ ادھر ہی رہنا ہے۔ حضرت نوحؑ کے پاس 1000 سال بعد موت آئی تو پوچھا گیا کہ زندگی کی حقیقت بیان کرو، تو فرمایا ایک مکان اور دو دروازے، ایک سے داخل ہوۓ ، دوسرے سے نکل گۓ، جتنی لمبی زندگی پا لو ، اس کی حقیقت اتنی ہی ہے۔
 پارہ 18، سورۃ المؤمنون، آیت 112، 113
"کہا جاۓ گا تم زمین میں بااعتبار برسوں کے کس قدر رہے؟ (۱۱۲) وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں سے پوچھ لیجیۓ (۱۱۳)
اس آیت سے ہمیں ایک سبق ملتا ہے، انسانی تعلقات کی درستگی کا،اگر جنت میں جانا ہے تو انسانی تعلقات درست کرنے ہوں گے۔ کیونکہ جنت میں دشمنی تو ہو نہیں سکتی۔ حدود کے اندر رہ کر اختلاف راۓ بری چیز نہیں ہے۔ اس دنیا میں ہر مزاج کے لوگوں کو پیدا کیا گیا، اس سفر میں کانٹے، پتھر، گڑھے سب کچھ ہے، مگر ضروری ہے کہ انسان اٹکتا، ٹھوکر کھاتا اور گرتا پڑتا اور الجھتا رہے؟ دیکھ کے چلنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں ہمیشہ مرضی کے مطابق حالات نہیں ملیں گے، یہ تو روزِ اول کا فیصلہ ہے۔ تو ضرورت ہے بہتر حل تلاش کرنے کی ، تم اپنا کام کرو، میں اپنا کام کروں گا۔ اپنے اپنے دائرے اور حدود میں رہ کر۔ اختلاف کو اختلاف براۓ اختلاف نہ لیں، بلکہ چیلنج کے طور پر لیں، چیلنج آپ کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔ امتحان ہے کہ کون بااصول ہو کر جیا اور کس نے گالی کا جواب اینٹ سے دیا اور پھر پتھر کھایا۔
حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی کو جب جنت سے نکال کر زمین پر بھیجا گیا تو انہیں سخت پشیمانی ہوئی۔ اللہ تعالٰی نے انہیں چند معافی کے کلمات سکھا دئیے تو انہوں نے ان کلمات کے ذریعے اللہ سے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔ سورۃ الاعراف آیت 23
"دونوں نے کہا، اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو ہمیں معاف نہیں کرۓ گااور ہم پر رحم نہیں کرۓ گا تو ہم واقعی نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے" (۲۳)
جب انہوں وہ پشیمان ہوۓ، غلطی کا اعتراف کیا اور بارگاہِ الہی میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق ٹھہرے۔ مغفرت کےساتھ انہیں عزت و اکرام سے نوازا ، نبوت سے سرفرازفرمایا۔ ھو التواب الرحیم اللہ کی ان صفات میں شدت ہے، کہ وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا ہے، وہ توبہ قبول کرنے سے عاجز نہیں آتا۔ بار بار اس کی طرف پلٹو گے ، وہ بار بار رحم کرۓ گا۔ اگر کوئی غلطی ہو جاۓ تو پھر غلطی پر غلطی نہ کرنے لگو  بلکہ اس کی طرف پلٹو ۔ اسی سے رجوع کرو، اس کے سامنے استغفار کرو، وہ قبول کرنے والا ہے۔
پھر توبہ کی قبولیت کے بعد حضرت آدمؑ ، ان کی بیوی اور اولادِ آدم کو زمین میں ہی ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔ اور ان کو کہا گیا کہ جب کبھی میری طرف سے کوئی ہدایت تمہاری طرف آۓ، اسے قبول کر لینا۔ اشارہ ہے نبیوں کی بعثت کی طرف۔ اور پھر بتا دیا گیا کہ جو قبول کرے کا اس ہدایت کو اور اس کی اتباع کرۓ گا ، اسے کوئی غم اور خوف نہ ہو گا۔ غم ہمیشہ گزری ہوئی چیز کا ہوتا ہے اور خوف مستقبل کا، تو مراد ہے کہ اسے اپنی گزری ہوئی زندگی کے بارے میں کوئی غم نہ ہو گا، کیونکہ وہ جانتا ہو گا کہ اس نے زندگی بے مقصد نہیں گزاری بلکہ اللہ کی اطاعت میں ، اس مقصد کے تحت گزاری ہے جس کے لیے اسے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ اسے اس زندگی کے بارے میں کسی نقصان کا غم نہیں ہو گا۔ اور نہ ہی آنے والے وقت کے لیے وہ خوف ذدہ ہو گا۔ اسے اپنے انجام کا اندازہ ہو گا۔ وہ پرسکون ہو گا۔ پارہ 17، سورۃ الانبیاء، آیت 102-103
"وہ تو دوزخ کی آہٹ تک نہ سنیں گےاوراپنی من پسند چیزوں میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے" (۱۰۲) وہ بڑی گھبراہٹ بھی انہیں غمگین نہ کر سکے گی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم وعدہ دئیے جاتے رہے۔(۱۰۳)"
اور دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے جب سب سے ذیادہ اللہ کا خوف اور محبت دل میں بس جاتے ہیں تو باقی دنیا کی چیزوں کا خوف اور محبت دل سے نکل جاتی ہے۔ پھر انسان کسی دنیاوی نقصان پر غم نہیں کھاتا اور نہ دنیا کی کوئی طاقت اسے خوفزدہ کر سکتی ہے۔ ایمان والوں کو ڈیپریشن نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس جنہوں نے اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو جھٹلایا ، وہ دنیا میں بھی جلتے کڑھتے رہتے ہیں اور آخرت میں بھی جلنا ان کا مقدر ہے۔ پارہ 16، سورۃ طٰہٰ آیت 124
"اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اورروزِ قیامت ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔" (۱۲۴)
اس واقعے میں تین کردار ہیں۔ فرشتے-آدم-ابلیس
اگر ایمان لا کر اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کی پیروی کی تو فرشتوں سے اونچے مقام کا حقدار ٹھہرے گا۔
اور اس ہدایت سے اگر منہ موڑا اور نافرمانی کی تو ابلیس سے بدتر کہلاۓ گا
حضرت آدمؑ کے واقعے میں ہمیں کیا پتا چلتا ہے؟
زندگی کا مقصد
زندگی کے امتحان
امتحان میں کامیاب ہونے کی شرائط
اور امتحان میں کامیاب اور ناکام ہونے والوں کا انجام۔۔